آستانہ،18جنوری(ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا)ایرانی وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ ان کا ملک کزاکستان کے دارالحکومت آستانہ میں شام میں قیام امن سے متعلق ہونے والے اجلاس میں امریکا کی شرکت کو قبول نہیں کرے گا۔دوسری جانب روسی وزیرخارجہ سیرگی لافروف نے کہا ہے کہ آستانہ مذاکرات کا مقصد شام میں جنگ بندی کو مستحکم کرنا ہے۔انہوں نے توقع ظاہر کی کہ نئی امریکی انتظامیہ شام میں قیام امن کی مساعی میں بھرپور تعاون کرے گی۔ماسکو میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سیرگی لافروف نے کہا کہ آستانہ مذاکرات شام میں حکومت کے خلاف لڑنے والے مسلح باغیوں کو سیاسی حقوق کی ضمانت فراہم کریں گے۔ روس ان مذاکرات میں خود بھی شرکت کرے گا اور امریکا اور اقوام متحدہ کو بھی آستانہ مذاکرات میں شرکت کی دعوت دی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ اگر روس مداخلت نہ کرتا تو دو یا تین ہفتوں میں دمشق کا صفایا ہوجاتا۔ ماسکو نے مداخلت کرکے دمشق کو سقوط سے بچالیا۔
سیرگی لافروف کا کہنا تھا کہ آستانہ مذاکرات میں شامی اپوزیشن، حکومت کے مندوبین شرکت کریں گے۔ اس کے علاوہ شام کی مسلح قوتوں کو بھی سیاسی عمل میں حصہ لینے کے لیے بات چیت میں شریک کیا جائے گا۔
روسی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ وہ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلیفون پر بات چیت کرکے انہیں آستانہ مذاکرات اور ان کی اہمیت پر مطلع کریں گے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ ٹرمپ انتظامیہ آستانہ مذاکرات میں شرکت کی دعوت کو قبول کریگی۔
ایک سوال کے جواب میں روسی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ شام میں جنگ بندی کے لیے تمام اعتدال پسند قوتوں کے لیے دروازے کھلے ہیں۔ جنگ بندی میں مزید قوتیں بھی شامل ہوسکتی ہیں۔ لافروف نے کہاکہ شام کو ایک فیڈرل ریاست کے طورپر تسلیم کرنے کا مسئلہ صرف شامی عوام تک محدود ہوگا۔روسی وزیرخارجہ نے شام کے بحران کے حوالے سے امریکی صدر باراک اوباما کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اوباما اعتدال پسند اپوزیشن کو النصرہ فرنٹ سے علاحدہ کرنے کے بارے میں غلط بیانی کا مظاہرہ کیا تھا۔